مولانانوشیراحمد
مہتمم دارالعلوم اسراریہ سنتوشپور ،کولکاتا

دیکھتے ہی دیکھتے حضرت مولانا اسرارالحق قاسمیؒ کو ہم سے بچھڑے ہوئے سال بھر کا عرصہ گزر گیا۔ظاہر ہے کہ دنیا میں آنے والے ہر انسان کو اپنی زندگی کے مقررہ ماہ و سال گزار کررخصت ہوناہے مگر بعض لوگوں کی زندگی اور ان کی شخصیت ایسی ہوتی ہے کہ ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی ان کی یادیں ہمارے ذہنوں میں بسی رہتی ہیں اور اپنی خدمات اور کارناموں کی وجہ سے وہ لوگ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔حضرت مولانا اسرارالحق قاسمیؒ کی شخصیت بھی یقیناً ایسی ہی تھی۔انہوں نے تاحیات ہر محاذ پر مسلمانوں کی خدمت و قیادت کا فریضہ بخوبی انجام دیا۔انہوں نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد سے ہی اپنے آپ کو ملی وسماجی خدمت کے شعبے سے وابستہ کرلیاتھا اور مدرسہ بدرالعلوم بیگوسرائے میں تدریسی مصروفیات کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ وہ مختلف موقعوں پر مسلمانوں کی سماجی و رفاہی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔اس عرصے میں مختلف قدرتی آفات اور حادثات کے موقعوں پر انہوں نے بڑھ چڑھ کر متاثرین کی خدمت کی ۔مولانا کے جذبہ خدمت اور ملی کازسے مضبوط وابستگی کودیکھتے ہوئے فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ نے انہیں مسلمانوں کی نمائندہ ملی تنظیم جمعیة علماءہند سے وابستہ ہونے کی دعوت دی اور اس کے بعد مولانانے جمعیة کے پلیٹ فارم سے پورے ملک کے دورے کیے،جہاں بھی فسادات،سیلاب یا قدرتی آفت آئی وہاں پہنچے اور متاثرین کی امداد و بازآبادکاری کا سامان کیا۔اس کے علاوہ جمعیة میں قیام کے دوران انھوں نے مختلف علمی و دینی موضوعات پر لگ بھگ ایک درجن کتابیں اور رسائل تحریر کیے،جمعیة کے مقاصد اور کارناموں کو پورے ملک میں متعارف کروایا۔لگ بھگ تیس سال آپ جمعیة علماءسے وابستہ رہے اوراس دوران سکریٹری،جنرل سکریٹری اور ہفت روزہ الجمعیة کی ادارت کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دیا۔ان کی شخصیت پوری طرح ملت کے لیے وقف ہوچکی تھی اور وہ ہمیشہ مسلمانوں کے مفاد میں سوچتے اور ہرممکن ان کے مسائل کے حل کی تدبیر کرتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ بعض ناگزیر حالات کی وجہ سے جمعیة سے علیحدہ ہونے کے بعد فقیہ العصر حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ کی دعوت پر آپ نے آل انڈیا ملی کونسل سے وابستگی اختیار کی اوراس کے پلیٹ فارم سے ملی و سماجی کام کرتے رہے۔

ملی کونسل سے وابستگی کے دوران انہیں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا شدید احساس ہوا،انہیں ایسا لگاکہ مسلمانوں کے دوسرے تمام مسائل اور مشکلات کی بنیادان کی تعلیمی پسماندگی ہی ہے اس لئے انہوں نے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کی تحریک پیدا کرنے کا عزم کیااور اس عزم کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے انہوں نے مئی 2000ءمیںآل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن قائم کیا اور اس کے تحت غیر تعلیم یافتہ علاقوں میںمکاتب و مدارس کے قیام کا سلسلہ شروع کیا۔اللہ کے فضل سے اس وقت فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چار اقامتی مدرسے اور 105مکاتب بحسن وخوبی علوم دینیہ کی اشاعت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔
حضرت مولانا کو علاقے کی مسلم بچیوں اور خواتین کی تعلیم کی بھی بہت زیادہ فکر تھی،کشن گنج اور گرد و پیش کے علاقے میں عام طورپر مسلمان بچیوں میں نہ تو دینی تعلیم کا رواج تھا اور نہ ہی جدید تعلیم کا رواج تھا،اس اندوہناک صورت حال کو دیکھتے ہوئے مولانا نے ہمت کرکے ایک اسکول کے قیام کا فیصلہ کیا اور 2002میں مسلم بچیوں کی دینی ماحول میں عصری تعلیم کے لیے ایک معیاری ادارہ ملی گرلز اسکول کی شکل میں قائم کیا،الحمدللہ آج یہ اسکول سی بی ایس ای بورڈ سے ملحق ہے اور یہاںہاسٹل کے ساتھ بارہویں تک کی معیاری اور مثالی تعلیم کانظم ہے اوراس اسکول میں صرف سیمانچل ہی نہیں بہار کے دوسرے دوردراز کے اضلاع کی بچیاں بھی بڑی تعداد میں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔اسی طرح وہ معاشرہ میں خواتین کے تئیں پائی جانے والی کمزوریوں پر بھی خاص توجہ دیتے تھے اور علاقے کے مختلف گاؤں میں جلسوں کے دوران وہ جہاں دین کے دوسرے پہلووں پر توجہ دلاتے تھے وہیں بیوی،بیٹی اور ماں کے حقوق پر بھی خاص طورپر گفتگو کرتے تھے،اس کا نتیجہ یہ تھا کہ عورتوں کے دلوں میں آپ کی بہت زیادہ عظمت اور احتر ام کے جذبات پائے جاتے تھے۔ممکن ہے یہ بات بعض قارئین کوعجیب لگے اور شاید بہت سے لوگ یقین بھی نہ کریں،مگر یہ حقیقت تھی کہ الیکشن کے دنوں میں مولانا کی کامیابی کے لئے بے شمار خواتین روزے رکھاکرتی تھیں اور ان کی بے مثال کا عقیدت کا اظہار مولاناکی وفات کے دن بھی اس طورپر سامنے آیاکہ ہزاروں خواتین آخری بار مولاناکی زیارت کے لئے اکٹھاہوئی تھیں۔

کشن گنج میں اے ایم یوسینٹر قائم کروانے میںبھی مولانا مرحوم کاکردار بے مثال ہے،آزادی کے بعد ہندوستان میں پہلی مرتبہ مولانا اسرارالحق قاسمی کی قیادت میں لاکھوں مسلمانوں نے بہار اور دہلی میں ایک تعلیمی ادارہ کے قیام کے لئے زبردست مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔مولانانے ایک طرف بہار کی حکومت کے خلاف احتجاج کیا تو دوسری طرف خود اپنی پارٹی کی حکومت کے خلاف بھی مظاہرے کئے اور آخر کار کشن گنج میں اے ایم سینٹر قائم کرواکر دم لیا۔تعلیمی میدان میںایک بڑا کارنامہ مولانا کایہ بھی ہے کہ کشن گنج حلقے میں 233سرکاری مدرسوں کی تعمیر و تزئین کاکام کروایا، ان اداروں کو ہر قسم کی سہولیات سے آراستہ کیااور وہاں کے تعلیمی نظام کو بھی بہتر کروایاتاکہ غریب مسلم بچے اور بچیاں ان مدرسوں میں سہولت نہ ہونے کی وجہ سے حصول علم سے محروم نہ رہ جائی ں۔اس سے پہلے ان مدرسوں کی حالت نہایت خستہ تھی اور وہاں بنیادی سہولیات جیسے استنجاخانہ اور کلاس روم وغیرہ تک نہیں تھے جس کی وجہ سے والدین اور سرپرست حضرات اپنے بچوں کو ان مدرسوں میں نہیں بھیجتے تھے ،مولانا کے اس مثالی اقدام کے بعد لوگوں نے ان اداروں میں بھی اپنے بچوں اور بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجنا شروع کردیا۔

اسی طرح مولانا کو غریب و پسماندہ مسلم آبادیوں میں مساجد کے قیام کی بھی بہت فکر تھی،چنانچہ جس گاؤں کے بارے میں آپ کو معلوم ہوتاکہ وہاں مسلمانوں کی آبادی ہے لیکن نماز پڑھنے کے لئے مسجدکا انتظام نہیں ہے تو اپنے ذرائع سے وہاں مسجد بنوانے کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے،ساتھ ہی مقامی مسلمانوں پر مساجد کی عظمت کو واضح کرتے ہوئے انہیں نماز کا اہتمام کرنے کی تلقین بھی کرتے۔آپ کی زندگی کی آخری تقریر جوآپ نے اپنی وفات سے محض چند گھنٹے قبل کشن گنج کے ایک ادارے میں کی تھی،اس میں بھی آپ نے مسلمانوں کو یہی تلقین کی کہ وہ مسجداور مدرسے سے اپنا رشتہ مضبوط کریں کیوںکہ مسجد اللہ کاگھر ہے جہاں سے یقین ملتاہے اور مدرسہ رسول اللہ ﷺکاگھر ہے جہاں سے حسنِ اخلاق و کردار ملتاہے۔آپ نے بہار و جھارکھنڈ کے مختلف علاقوں میں لگ بھگ تین سومساجد کی تعمیر کروائی۔

انہوں نے اپنی قلمی نگارشات کے ذریعہ مسلمانوں کی دینی،سماجی و سیاسی بیداری کاجوکام کیاوہ بھی سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ان کے قلم سے ایک ایک درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آئیں اور ان کی متعددکتابوں کا انگریزی ،بنگالی اور گجراتی زبانوں میں ترجمہ بھی شائع ہوا۔حضرت مولانااسرارالحق قاسمی اپنی محنت،لگن،ایمانداری،دیانت داری اور اخلاص کی بدولت ہر محاذ پر نمایاں رہے۔وہ ذاتی زندگی میں بے پناہ عجز و انکساری والے تھے اور ان کے دل میں خلوص و استغنابھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا،اسی وجہ سے ہندوستانی عوام کی نظروں میں انہیں ایک ہردلعزیز قائد و رہنما کی حیثیت حاصل تھی،انہوں نے سیاست میں سرگرم ہونے کے باوجود کبھی بھی شرافت کادامن نہیں چھوڑا اور ہمیشہ سادگی و خلوص کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ان کے سیاسی مخالفین مختلف بہانوں سے ان کے خلاف غلط پروپیگنڈہ بھی کیا کرتے تھے،مگر انہوں نے کبھی اپنے کسی سیاسی مخالف کے خلاف ایک لفظ استعمال نہیں کیا،بلکہ ایسے لوگوں کے سامنے بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا،یہ آپ کا ایسا وصف تھا جس کی ہر طبقہ میں قدر کی جاتی تھی۔موجودہ ملکی سیاست میں مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں اور روزانھیں سرکار کی جانب دارانہ پالیسیوں اور فیصلوں کی وجہ سے جس قسم کی دشواریوں کا سامنا ہے ایسے میں مولانا جیسے مخلص اور بے باک قائد ہم سب کو بہت شدت سے یاد آتے ہیں ،آج اگر وہ باحیات ہوتے تو موجودہ قومی و ملی مسائل کے حل میں ان کا اہم رول ہوتا اور وہ اپنی بصیرت و دانش مندی سے مسلمانوں کی مشکلات کو دور کرنے کی مخلصانہ تدبیر کرتے۔ہماری دعاءہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔(آمین)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *