اسلام آباد: سفارتی ذرائع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کے دباؤ میں اپنا دورہ ملیشیا منسوخ کر دیا۔

حالانکہ دوشنبہ کو وزیر اعظم کی خصوصی معاون برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملیشیا میں ہونے والے سربراہ اجلاس میں وزیر اعظم کی شرکت کے حوالے سے فیصلہ 18دسمبر بروز بدھ بحرین اور سوئزرلینڈ کے دورے سے وطن واپسی کے بعد کیا جائے گا۔

لیکن ابھی وزیر اعظم کی وطن واپسی نہیں ہوئی لیکن سعودی عرب کے تحفظات اور اس کے حلیف بحرین اور کویت کے تیور دیکھ کر پاکستان کو وزیر اعظم کی وطن واپسی سے پہلے ہی یہ اعلان کرنا پڑا کہ وزیر اعظم عمران خان ملیشیا چوٹی کانفرنس میں شرکت نہیںکریں گے اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ان کی نمائندگی کریں گے۔

علاوہ ازیں خارجہ ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بھی اپنی ہفت روزہ پریس کانفرنس میں وزیر اعظم کے دورہ ملیشیا کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس چوٹی کانفرنس میں وزیر اظم عمران خان کی شرکت سے عام اسلام کو درپیش چیلنجوں خاص طور پر حکمرانی، ترقی، دہشت گردی اور اسلام دشمنی سے نمٹنے کے حوالے سے اپنے خیالات کے اظہار اور حل تلاش کرنے کا موقع حاصل ہوگا۔نومبر میں ملیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر ماٰثر محمد نے اپنے نائب وزیر خارجہ مرذوقی بن حاجی یحییٰ کے توسط سے وزیر اعظم عمران خان کو ملیشیا آنے کی دعوت دی تھی۔

سفارتی حلقوں میں یہ سرگوشیاں ہیں کہ ہفتہ کے روز عمران خان کی سعودی عرب کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبد العزیزآل سعود سے اور پھر دوشنبہ کو بحرین کے بادشاہ کے بعدحماد بن عیسیٰ ال خلیفہ اور ولیعہد شہزادہ سلمان بن حماد الخلیفہ سے ملاقات نیز بحرین کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز سے سرفراز کیے جانے کے بعدپاکستان نے یہ فیصلہ کیا۔

سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ چونکہ اس اجلاس میں سعودی عرب کے اصل حریف ایران اور سعودی عرب کی قیادت میں چار عرب ملکوں بحرین، کویت اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے بائیکاٹ جھیل رہے قطر اور ترکی کے سربراہوں کی شرکت سے یہ چاروں ممالک ملیشیا سے ناخوش ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ اس چوٹی اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان شرکت کریں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کانفرنس میں ملیشیا نے سعودی عرب کو مدعو نہیںکیا تھا ۔

بلکہ ملیشیا کے وزیر اعظم نے اس چوٹی کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ کوالالمپور سربراہ اجلاس تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی)کی جگہ، جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو درپیش مسائل سے نمٹنے میں ناکام ہو گئی ہے،ایک نئی تنظیم تشکیل دینے میں مدد گار ثابت ہوگا۔

علاوہ ازیں یہ چاروں عرب ممالک اس چوٹی کانفرنس میں قطری بادشاہ حماد بن عیسیٰ ال خلیفہ، ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان اور ایران کے صدر حسن روحانی کی شرکت پر چیں بجبیں ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ سعودی عرب اور اس کے حلیف ممالک کی اہمیت کم کرنے کے لیے ایک نئی مگرمتوازی قیادت کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *