اسما طارق، گجرات

مرشد کیا حال سناؤں
معلوم نہیں کس ڈگر چل پڑا ہوں
بس ہواؤں کے رخ بھاگ رہا ہوں
مرشد سچ تو یہ ہے کہ اندر ہی اندر
خود سے لڑ رہا ہوں
مرشد میں چاہتا تھا کہ کچھ بن جاوں
مگر راستوں سے قطعی انجان تھا
مرشد مگر آپ نے بھی اچھا نہیں کیا
بیج راستے میں چھوڑ دیا
مرشد ہر اک سے الجھ رہا ہوں
دراصل خود سے الجھا بیٹھا ہوں
مرشد میں تو چاہتا تھا کہ دنیا میری ہو جائے
نادان تھا کتنا اس چاہ میں خود کو کھو دیا
مرشد میں تو اچھا جینے چلا تھا
مگر یہاں جینے سے مرنا بھلا
مرشد کتنا اچھا ہے نہ وہ انسان
کسی طمع کے بغیر اطمینان سے جیتا ہے
پر مرشد وہ ہے کہاں
دکھتا کیوں نہیں
مرشد خود کو کیا اچھا لگے گا
اس سے پہلے سوچتا ہوں
زمانے کو کیا اچھا لگے گا
مرشد صحیح غلط کی کچھ سمجھ نہیں
بس بیچ کہیں میں الجھ رہا ہوں
مکڑی کے جالے سا الجھا جال
کیسے سلجھاوں مرشد
سمجھنا کچھ چاہتا ہوں
سمجھتا کچھ ہوں
بہت بھاگا ہوں اسکی طلب میں
پھر بھی خالی ہاتھ ہوں مرشد
لوگ کہتے ہیں زمانہ خراب ہے مرشد
سوچتا ہوں زمانہ لوگ ہی تو ہیں
مرشد پڑھ پڑھ کتابیں
سمجھ دار بنا پھرتا ہوں
پر اندر سے بکھرا بیٹھا ہوں
مرشد اب حال سناوں کس کو
آپ سے بھی تو الجھا بیٹھا ہوں
ای میل:trqasma2511@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *