سہیل انجم

ہندوستان اور ملیشیا کے درمیان تاریخی رشتے رہے ہیں۔ قدیم زمانے سے ہندوستانی کام کی تلاش میں ملیشیا جاتے رہے ہیں۔ آج لاکھوں ہندوستانی وہاں آباد ہیں۔ 2014 میں بی جے پی کی قیادت میں مرکزی حکومت کے قیام کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے لُک ایسٹ (Look East) کی پالیسی تیز کی تو دونوں ملکوں کے تعلقات مزید گہرے ہو گئے۔ لیکن پچھلے دنوں کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ باہمی تعلقات کی گاڑی بظاہر پٹری سے اترتی نظر آنے لگی۔ اگر وہ پٹری سے نہ بھی اترے تو کم از کم اس کی رفتار تو سست ہو گئی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں کے رشتوں میں سردمہری آگئی ہے۔

جب ہندوستان کی حکومت نے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کو ختم کر دیا تو پوری دنیا میں اس پر رد عمل ظاہر کیا گیا۔ بیشتر ملکوں نے کہا کہ یہ ہندوستان کا داخلی معاملہ ہے اور اس میں کسی کو مداخلت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہندوستان نے جو کچھ کیا ہے اپنے آئین کے دائرے میں رہ کر کیا ہے۔ گویا دنیا کے بیشتر ممالک نے اس معاملے پر ہندوستان کا ساتھ دیا۔ لیکن پاکستان نے اس کے خلاف خوب ہنگامہ کیا۔ اس کی کوششوں سے چین نے سلامتی کونسل کے مستقل ممبران پر دباؤ ڈالا اور بند کمرے میں کونسل کا ایک اجلاس ہوا جس میں کشمیر کے مسئلے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ادھر ملیشیا میں جب سے 94 سالہ ماٰثر محمد برسراقتدار آئے ہیں ملیشیا کا جھکاؤ پاکستان کی جانب زیادہ ہو گیا ہے۔ ماٰثر نے اپنے پیش رو کے مقابلے میں ایک جارحانہ خارجہ پالیسی اختیار کی اور ایسے امور پر بھی بیان دینے لگے جن پر پہلے خاموشی اختیار کی جاتی رہی ہے۔ اسی درمیان ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس نیویارک میں منعقد ہوا۔ ہندوستان نے پانچ اگست کو جموںو کشمیر سے دفعہ 370ختم کیا تھا۔ جب اقوام متحدہ میں تقریر کرنے کی ماٰثر محمد کی باری آئی تو انھوں نے ہندوستان کے اس قدم کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ بڑے جارحانہ انداز میں اپنی بات رکھی۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہندوستان نے جموں و کشمیر پر یورش کرکے اسے اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ جبکہ جموں و کشمیر ہندوستان ہی کا حصہ رہا ہے اور ہے۔ لیکن ماٰثر نے اس انداز میں تقریر کی کہ جیسے کشمیر کوئی آزاد ملک تھا اور ہندوستان نے اس پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کر لیا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ماٰثر محمد نے یہ تقریر پاکستان کو خوش کرنے کے لیے کی تھی۔

ظاہر ہے ان کی یہ بات ہندوستان کو بری لگنے والی تھی۔ کوئی بھی ملک اپنے اندرونی امور میں اس طرح کی گفتگو پسند نہیں کرے گا۔ لہٰذا ہندوستان نے ملیشیا سے ریفائنڈ پام آئل (خوردنی تیل) کی خرید کے سلسلے میں نیا فیصلہ کیا۔ دنیا میں سب سے زیادہ پام آئل انڈونیشیا پیدا کرتا ہے۔ دوسرے نمبر پر ملیشیا ہے۔ ملیشیا میں پام آئل کی فروخت سے ملنے والا زرمبادلہ وہاں کی جی ڈی پی یعنی مجموعی قومی پیداوار کا تین فیصد ہے۔ ہندوستان اس سے پام آئل خریدنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ وہاں سے پام آئل کی بڑی مقدار نیپال آتی ہے اور وہاں اسے ریفائنڈ کیا جاتا ہے۔ حکومت نے پام آئل کی خرید کو ”آزاد“ کٹگری سے نکال کر ”پابند“ کٹگری میں ڈال دیا۔ یعنی پہلے پرائیویٹ درآمدکاروں کو یہ آزادی تھی کہ وہ جب اور جتنا چاہیں پام آئل ملیشیا سے خرید سکتے ہیں۔ لیکن اب انھیں اس کے لیے حکومت سے اجازت لینی ہوگی۔ اگر حکومت اجازت دے گی اور جتنا تیل خریدنے کی اجازت دے گی درآمدکار اتنا ہی خرید سکیں گے۔

ہندوستان کے اس فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ماٰثر محمد نے کہا کہ انھیں جو بات سچ لگی تھی وہ انھوں نے کہی۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ وہ سچ بات بولتے رہیں گے خواہ اس سے ان کے ملک کو مالی خسارہ ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔ لیکن وہاں کے دوسرے رہنما ان کی اس پالیسی کے حق میں نہیں ہیں۔ انھوں نے انور ابراہیم کو اپنا جانشین مقرر کر دیا ہے۔ انور چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ سلجھ جائے اور دونوں ملکوں کے رشتے از سر نو پہلے جیسے ہو جائیں۔ ان کو معلوم ہے کہ ہندوستان کے اس فیصلے سے ملیشیا کو کافی مالی نقصان ہو رہا ہے اور اگر ایسے ہی چلتا رہا تو وہ جب برسراقتدار آئیں گے تو ان کو مزید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان اپنا فیصلہ واپس لے۔ ہندوستانی حکومت کے اندرونی ذرائع بھی تعلقات کو پہلے کی مانند بحال کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل ہندوستان ملیشیا کو ایک پیغام دینا چاہتا تھا کہ اگر وہ ہندوستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے گا تو وہ بھی کوئی فیصلہ کر سکتا ہے۔ دونوں ملکوں میں ذاکر نائک کے سلسلے میں بھی اختلافات پیدا ہوئے تھے۔ جب ہندوستان کی پولیس نے ذاکر نائک پر دہشت گردی کا الزام عاید کیا تو اس وقت وہ سعودی عرب میں تھے۔ وہاں سے وہ ملیشیا چلے گئے جہاں ان کو مستقل رہائشی ویزا حاصل ہے۔ ان پر بعد میں دہشت گردی کا الزام تو ثابت نہیں ہوا البتہ ان کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس کافی مضبوط ہے۔ ہندوستان نے ملیشیا سے کہا کہ وہ ذاکر نائک کو اس کے حوالے کر دے۔ لیکن اس نے انکار کیا۔ حالانکہ اس نے ان کی تقریر پر پابندی لگا دی لیکن انھیں ہندوستان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا ہندوستان اس معاملے پر بھی اس سے ناراض تھا۔ اسی لیے جب مہاتیر محمد نے کشمیر پر انتہائی جارحانہ اور ناقابل قبول موقف اختیار کیا تو ہندوستان نے بھی اس پر اقتصادی پابندی عاید کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

جہاں تک ہندوستان کے ذریعے پام آئل کی خرید پر پابندی کا معاملہ ہے تو ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے وقتی طور پر تو ملیشیا کے لیے پریشانی ہو گی لیکن طویل عرصے کے لیے یہ بڑا مسئلہ نہیں ہو گا۔ یونیورسٹی آف تسمانیا کے ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جیمز چن کے مطابق ملیشیا کے لیے ہندوستان جیسے بڑے گاہک کا فوری نعم البدل ڈھونڈنا مشکل ہو گا۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے ایک سابق سفیر وشنو پرکاش کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں نے اپنے تعلقات استوار کرنے میں بہت توانائی اور وقت صرف کیا ہے اور یہ ایک بہت معمولی سا مسئلہ ہے جو بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا۔ ملیشیا کے ہاپ سینگ کنسولیڈیٹڈ گروپ سے تعلق رکھنے والے ایڈورڈ منگلو کا کہنا ہے کہ ہندوستان بہت جلد ملیشیا کے پاس واپس آ جائے گا کیونکہ وہ زیادہ عرصے تک مہنگا پام آئل نہیں خرید پائے گا۔ البتہ ماٰثر محمد کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا ہو گا۔ ادھر ملیشیا اب افریقہ میں پام آئل کے نئے خریدار ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہندوستان کے علاوہ یورپی یونین نے بھی ماحولیات کو بچانے کے لیے ملیشیا سے اگلے دس برسوں میں پام آئل کی درآمد ختم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ ادھر پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر ہندوستان ملیشیا سے پام آئل نہیں خریدے گا تو ایسے میں پاکستان پام آئل کی درآمد بڑھانے کی پوری کوشش کرے گا تاکہ آئل کی برآمد کم ہونے سے ملیشیا کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی ہو سکے۔

دنیا بھر میں ہندوستان خوردنی تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے اور خوردنی تیل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کا زیادہ تر انحصار ملیشیا اور انڈونیشیا پر ہے۔ وہ سالانہ نو ملین ٹن سے زیادہ پام آئل درآمد کرتا ہے۔ ملیشیا کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس جنوری سے اکتوبر کے درمیان ہندوستان ملیشین پام آئل خریدنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔ اس عرصے میں اس نے ملیشیا سے چار ملین ٹن پام آئل خریدا تھا۔ تاہم ماٰثر محمد کے بیانات سامنے آنے کے بعد ہندوستان میں پام آئل سے متعلقہ ایسوسی ایشن (ایس ای اے آئی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بی وی مہتا نے کہا ہے کہ احتیاطی تدبیر کے طور پر پام آئل درآمد کرنے والی ایسوسی ایشن کے زیادہ تر ممبران نے اپنا فوکس تبدیل کیا ہے اور اب وہ ملیشیا کے بجائے انڈونیشیا سے خریداری کر رہے ہیں۔

اسی درمیان ملیشیا نے ہندوستان کے تعلق سے اپنا موقف نرم کیا ہے۔ اس کے بعد ہی ہندوستان کے اندرونی ذرائع نے بھی کچھ لچکدار رویہ اختیار کیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں پیدا ہو جانے والی یہ سردمہری عارضی ثابت ہوگی اور جلد ہی دونوں ملکوں کے رشتوں کی گاڑی ایک بار پھر فراٹے بھرنے لگے گی۔
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *