سہیل انجم

چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس ایک وبائی مرض کی مانند پھیل گیا ہے۔ اب تک دو سو سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہو بئی صوبے سے شروع ہونے والا یہ وائرس بیس ملکوں میں پھیل چکا ہے۔ صحت کے عالمی ادارے WHO نے عالمی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ چین ہندوستان کا ہمسایہ ملک ہے۔ووہان اور دوسرے شہروں میں بہت سے ہندوستانی آباد ہیں بالخصوص اسٹوڈنٹ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس لیے ہندوستان کا متفکر ہونا ضروری ہے۔ ابھی تک ہندوستان اس وبائی مرض سے اچھوتا تھا لیکن اب ہندوستان کے ایک شہری کو بھی یہ مرض لاحق ہو گیا ہے۔ کیرالہ کے ایک اسٹوڈنٹ میں کروناوائرس پازیٹیو پایا گیا ہے۔ جس سے یہ خدشہ جنم لے رہا ہے کہ کیا کروناوائرس ہندوستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہندوستان نے تیاریاں کر لی ہیں۔ ملک کے کئی ایئرپورٹوں پر باہر سے آنے والوں کی اسکریننگ ہو رہی ہے۔ وہاں تھرمل اسکینر لگائے گئے ہیں۔ جس کے اندر بھی ذرا سا شبہ پایا جا رہا ہے اسے قرنٹائن میں یعنی الگ تھلگ رکھا جا رہا ہے۔ ممبئی میں ایک اسپتال میں قرنٹائن بنا دیا گیا ہے۔ پونے کے پاس کئی لیب تیار کیے گئے ہیں جہاں جانچ کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ ہندوستان نے چینی انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ چین سے ہندوستانی شہریوں کو نکالنے میں اس کی مدد کرے۔ اس کے لیے دو جمبو طیارے تیار کھڑے ہیں۔ چینی انتظامیہ سے اجازت ملتے ہی وہ روانہ ہو جائیں گے۔

ہندوستان کی وزارت صحت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزارتِ خارجہ نے اس سلسلے میں چین سے باضابطہ طور پر درخواست کی ہے۔ وزارتِ صحت نے ایک ایڈوائزری جاری کر کے ہندوستانی باشندوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ چین کے دورے سے اجتناب کریں۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ چین میں مزید کیسز اور دوسرے ملکوں کے مسافروں سے متعلق کیسز کے پیش نظر ہدایت دی جاتی ہے کہ چین کا غیر ضروری سفر نہ کیا جائے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہندوستان 30 ایسے ملکوں میں شامل ہے جہاں کرونا وائرس کے پھیلنے کا خدشہ ہے۔

دنیا میں اب تک اس وائرس کے تقریباً پانچ سو کیس سامنے آئے ہیں اور خدشہ ہے کہ یہ وائرس اور آگے امریکہ، جاپان، تھائی لینڈ اور جنوبی کوریا تک بھی پھیل چکا ہے اور پاکستان میں بھی حکام نے کورونا وائرس کے حوالے سے تنبیہ جاری کی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے حکام کے مطابق 2002 میں چین میں کرونا وائرس کی وجہ سے 774 افراد ہلاک ہوئے اور مجموعی طور پر اس سے 8098 افراد متاثر ہوئے تھے۔ کورونا وائرس کی بہت سی اقسام ہیں لیکن ان میں سے چھ اور اس حالیہ وائرس کو ملا کر سات ایسی قسمیں ہیں جو انسانوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ان کی وجہ سے بخار ہوتا ہے، سانس کی نالی میں شدید مسئلہ ہوتا ہے۔ اس نئے وائرس کے جنیاتی کوڈ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ رسپائریٹری سنڈروم (سارس) سے ملتا جلتا ہے۔ اس سے متاثر ہونے والے افراد میں ووہان سے تعلق رکھنے والے میں کم از کم 15 طبی کارکن بھی شامل ہیں جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔ جنوبی کوریا نے بھی اپنے پہلے کیس کی تصدیق کی ہے جبکہ تھائی لینڈ میں دو اور جاپان میں بھی ایک کیس سامنے آیا ہے۔ سنگاپور اور ہانگ کانگ سے سفر کرنے والوں کی دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر اسکریننگ کی جا رہی ہے۔ اسی طرح کے اقدامات امریکہ نے بھی اپنے تین بڑے ہوائی اڈوں پر شروع کیے ہیں جن میں سان فرانسسکو، لاس اینجلس اور نیو یارک کے ایئرپورٹ شامل ہیں۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی میں شعبہ پبلک ہیلتھ کے صدر گیبرئیل لیونگ نے ایک پریس بریفنگ کے دوران اس وائرس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر بتائی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اپنے ہاتھ بار بار دھوئیں اور اپنے ناک یا چہرے کو مت رگڑیں۔ احتیاط کریں اور باہر جاتے ہوئے ماسک پہن کر رکھیں۔ پرہجوم جگہوں پر جانے سے اجتناب کریں۔ اگر آپ نے چین کے شہر ووہان کا سفر کیا ہے تو اپنا طبی معائنہ ضرور کرائیں۔ اپنے ڈاکٹر سے ہرگز یہ بات مت چھپائیں کہ آپ نے ووہان کا سفر کیا ہے۔

چونکہ یہ اس وائرس کی ایک ایسی نئی قسم ہے جو انسانوں میں پہلے کبھی نہیں پائی گئی اس لیے اب تک کوئی ایسی ویکسین سامنے نہیں آئی جو اس وائرس کے خلاف کارآمد ثابت ہو۔ تاہم محققین ویکسین تشکیل دینے کے لیے دن رات ایک کر رہے ہیں۔ چینی حکام اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس وقت سے صرف چین کے شہر ووہان آنے جانے پر پابندی ہے۔ تاہم آپ کو سفر کرنے سے پہلے متعلقہ ملک کے سفارت خانے کی طرف سے جاری کی جانے والی تازہ ترین ٹریول ایڈوائزری ضرور دیکھ لیجیے گا۔ انسانوں میں اس وائرس کے پہلے کیسز چین کے شہر ووہان میں دسمبر کے مہینے میں سامنے آئے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ اس سے قبل اس وائرس کی انسانوں میں موجودگی کے کوئی واقعات نہیں ہیں۔ اس وائرس کی افزائش میں، یعنی انفیکشن ہونے سے اور علامات نظر آنے تک محض چند دن لگتے ہیں۔ اسی لیے اگر کوئی شخص اس وائرس سے متاثر ہو تو چند ہی دن میں علامات دکھائءدے جاتی ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ شروع میں یہ وائرس جانوروں سے انسان میں منتقل ہوا۔

اب تک کرونا وائرس دنیا کے 15 ممالک میں پھیل چکا ہے۔ تاہم صرف چین ایک ایسا ملک ہے جہاں اس وائرس سے متاثرین کی اموات ہو رہی ہیں۔ ووہان میں پھنسے ہوئے لوگوں میں ہزاروں غیر ملکی شامل ہیں۔ اس وقت ووہان کی سڑکیں اور علاقے ویران نظر آرہے ہیں اور لوگ گھروں تک محدود ہیں۔ شہر میں گاڑیوں میں سفر کرنے پر بھی پابندی عائد ہے۔ جاپان کے ساتھ ساتھ متعدد دیگر ممالک بھی ووہان سے اپنے شہریوں کو نکالنے کے انتظامات میں مصروف ہیں۔ ان ممالک میں فرانس، جنوبی کوریا، قازقستان ، جرمنی، مراکش، اسپین، کینیڈا، نیدر لینڈ، میانمار، آسٹریلیا، اسپین اور روس شامل ہیں۔ فرانس نے اپنے کئی شہریوں کو وہاں سے نکال لیا ہے۔ جنوبی کوریا کا طیارہ بھی اپنے شہریوں کو لینے ووہان جا رہا ہے۔ اسی طرح قازقستان نے چین سے نقل و حمل رابطے منقطع کر نے کے ساتھ ساتھ وہاں سے اپنے 98 طالب علموں کو واپس لانے کے انتظامات شروع کر دیے ہیں۔ جرمنی رواں ہفتے اپنے 90، مراکش 100، کینیڈا 167، نیدر لینڈ 20 اور میانمار 60 شہریوں کو نکال لے گا۔ آسٹریلیا، اسپین اور روس بھی اپنے شہریوں کی واپسی کے انتظامات کو آخری شکل دے رہے ہیں۔ حالانکہ WHO نے وہاں سے لوگوں کو نکالنے کا مشورہ نہیں دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر نکالے گئے لوگوں میں سے کسی میں وائرس کی علامتیں پائی گئیں تو اس کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

بہر حال اس وقت دنیا پر کروناوائرس کا خطرہ منڈلا رہا ہے اور ہندوستان بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے۔ یہاں کی حکومت ایسے مواقع پر ہر ممکن کوشش کرکے لوگوں کو بچانے کی تدابیر کرتی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ کروناوائرس ہندوستان میں نہیں پھیلے گا۔
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *